کورونا وائرس کے خلاف کامیابی حاصل کرنے والی خواتین سربراہانِ مملکت
دسمبر 2019 میں چین کے شہر ووہان سے پھیلنے والی عالمی وبا کورونا وائرس اس وقت دنیا کے (200) کے قریب ممالک میں پھیل چکی ہے۔ جس نے (27) جولائی تک ایک کروڑ (62) لاکھ سے زائد افراد کو متاثر کیا ہے۔ جبکہ یہ وبا (6) لاکھ (47) سے زائد افراد کی ہلاکت کی وجہ بھی بنی ہے۔
کورونا وائرس سے صحتیاب ہونے والے افراد کی تعداد (93) لاکھ (97) ہزار سے تجاوز کرچکی ہے۔ تاہم ماہرین کا ماننا ہے کہ محدود ٹیسٹنگ کی وجہ سے دنیا بھر میں وبا کے کیسز کی اصل تعداد کافی زیادہ ہے۔
کورونا وائرس انسان سے کس جانور چمگادڑ یا پینگولین سے منتقل ہوا، یہ ابھی تک معمہ ہے جبکہ اس کے پھیلاؤ کے وقت کے تعین سے متعلق بھی تحقیقات جاری ہیں_۔
دنیا بھر کی حکمران جمہوری حکومتیں اور بادشاہت سائنسدان و محققین اس وقت اس وبا سے بچاؤ کی ویکسین کی تیاری اور ممکنہ علاج ڈھونڈ نکالنے کے لیے کوشاں ہیں۔ تاکہ انسانیت کو اس مہلک وبا سے بچایا جاسکے۔
ایک ایسے وقت میں جب پوری دنیا وبا کے خلاف جنگ لڑتے ہوئے سماجی فاصلے پر مبنی نئے معاشرے کی راہ پر گامزن ہے۔ وہیں یہ بات بھی سامنے آئی ہیں کہ عالمی قیادت میں صرف (7) فیصد کردار ادا کرنے والی خواتین سربراہانِ مملکت نے اپنی بھرپور قائدانہ صلاحیتوں کا مظاہرہ کرتے ہوئے، کورونا وائرس پر قابو پا کر یا اس کے پھیلاؤ کو روک کر کامیابی حاصل کی اور انہیں عالمی سطح پر سراہا جارہا ہے۔۔
ان خواتین کو وبا کے بعد فوری کارروائی سائنس پر اعتماد یا مشکل فیصلوں کے باعث سراہا گیا ہے۔ جس کے نتیجے میں وہ اپنے ممالک میں وبا کے پھیلاؤ اور اس کے اثرات کو کم کرنے میں کامیاب ہوئی ہیں_۔
کورونا وائرس کے خلاف جن ممالک کی خاتون سربراہان کا کردار قابل تعریف ہے۔ تائیوان،_ نیوزی لینڈ،_ ناروے اور جرمنی قابل ذکر ہیں۔ پر یہاں ہم تائیوان کے بارے میں ذکر کریں گے۔
ان ممالک میں تائیوان کی سربراہ نے کورونا وائرس سے متعلق کیا حکمت عملی اپنائی اس کا ایک جائزہ کچھ یوں ہے:
کیسز اور اموات کی صورتحال۔__۔
سی ڈی سی تائیوان کے مطابق (27) جولائی تک ملک میں کورونا وائرس کے، کیسز کی مجموعی تعداد (458) اور ہلاکتوں کی تعداد (7) تھی۔__۔
تائیوان میں اس روز تک کورونا وائرس، کی تشخیص کے لیے (80) ہزار (623) ٹیسٹس کیے جاچکے تھے۔ جن میں سے (458) افراد میں وائرس کی تصدیق ہوئی اور ان میں سے (440) صحتیاب ہوچکے تھے۔__۔
خیال رہے کہ تائیوان میں (16) فروری کو، ایک ہی روز میں کورونا وائرس کے دو کیسز کی تصدیق ہوئی تھی۔__۔ اور (20) مارچ کو کورونا وائرس سے پہلی ہلاکت رپورٹ ہوئی تھی۔__۔
مارچ کے وسط میں تائیوان میں کورونا وائرس کے کیسز میں اضافہ دیکھنے میں آیا، اور (20) مارچ کو سب سے زیادہ 27کیسز کی تصدیق ہوئی۔ جس میں بعدازاں کمی کا رجحان دیکھا گیا۔ لیکن (19) اپریل کو (22) کیسز کی تصدیق ہوئی تھی۔۔
جس کے بعد تائیوان میں یومیہ کیسز کی تعداد چند کیسز تک محدود رہی۔ تاہم (17) جولائی کو فلپائن سے آنے والے (2) افراد میں وائرس کی، تصدیق ہوئی تھی۔
تائیوان میں (9) مارچ کو کورونا وائرس کا کوئی کیس سامنے نہیں آیا تھا۔ جس کے بعد (14) اپریل کو بھی کوئی کیس رپورٹ نہیں ہوا تھا۔ بعدازاں مئی سے لے کر (19) جولائی تک وقفے وقفے سے صرف (14) دن میں کیسز سامنے آئے۔ جن کی تعداد (25) ہے۔
علاوہ ازیں تائیوان میں شرح اموات انتہائی کم ہے۔ اور (13) مئی کے بعد تائیوان میں کورونا وائرس سے کوئی ہلاکت نہیں ہوئی۔
تائیوان کا ردعمل دنیا میں بہترین قرار۔
جنوری میں جونز ہاپکنز یونیورسٹی کی تحقیق میں بتایا گیا تھا۔ کہ چین کے ساتھ جغرافیائی طور پر قریب ہونے،، تعلقات اور وہاں نقل و حمل کے باعث تائیوان،، وبا سے سب سے زیادہ متاثر ہونے کے خطرات والے ممالک میں سے ایک تھا_۔
تاہم تائیوان کی خاتون صدر سائی اِنگ وین کی جانب سے کیے گئے۔ بروقت اقدامات سے وبا کا پھیلاؤ رک گیا،، یہی وجہ ہے کہ یہاں رپورٹ ہونے والے اکثر کیسز بیرون ملک سے آنے والے مسافروں میں سامنے آئے۔۔
مندرجہ ذیل اقدامات اور پالیسز کی بنیاد پر تائیوان کے ردعمل،، کو بہترین قرار دیا جارہا ہے-:
وبا سے بچاؤ۔
تائیوان کی صدر نے وبا کے پھیلاؤ سے قبل ہی اقدامات کیے جو وائرس کے کم پھیلاؤ کا باعث بنے، جب دسمبر 2019 میں وہان میں نوول کورونا وائرس سے متعلق رپورٹس سامنے آئیں۔ تو تائیوان کی صدر نے چین کی جانب سے، وائرس پر قابو پانے یا انسانوں کے درمیان، منتقل نہ ہونے سے متعلق سرکاری اعلانات پر انحصار نہیں کیا۔۔
سائی اِنگ وین نے وبا سے بچاؤ کے لیے فوری طور پر ووہان سے آنے والے مسافروں کی اسکریننگ کا آغاز کیا تھا ۔اور کووڈ-19- کی علامات ظاہر کرنے والے مسافروں کی شناخت کے بعد انہیں آئسولیٹ کیا گیا تھا۔۔۔
ماضی کا تجربہ۔۔
عالمی وبا کورونا وائرس پر قابو پانے میں تائیوان کی صدر کی کامیابی، ماضی میں وبا سے ہونے والے نقصانات کے تجربے پر بھی مبنی ہے۔۔
(2003) میں پھوٹنے والی وبا سیویر ایکیوٹ ریسپائریٹری سنڈروم سارس کے باعث نہ صرف ہانگ کانگ اور چین بلکہ تائیوان بھی بدترین متاثرہ علاقہ تھا۔ اس دوران ڈیڑھ لاکھ سے زائد افراد کو قرنطینہ کیا گیا تھا۔ اور وبا کے باعث (181) ہلاکتیں ہوئی تھیں۔۔
تائیوان نے وبا سے ہونے والے تجربے سے سیکھا اور (2009) میں ایچ ون این ون فلو پر مؤثر رد عمل دیا، سانس کے مسائل سے وابستہ 2 بیماریوں کے پھیلاؤ سے تائیوان نے سبق سیکھا اور اسے کووڈ (-19) کے خلاف تیاری اور ردعمل میں استعمال کیا۔۔
سارس کے دوران پیش آنے والے تجربے سے تائیوان نے بیماری کے خلاف تیز ترین ردعمل سے سیکھا اور صدر نے پرسنل پروٹیکٹو ایکوئمپنٹ 'پی پی ای' جیسا کہ ماسک کی دستیابی،، وائرس کے کیسز کی نشاندہی کے لیے قواعد و ضوابط اور مقامی سطح پر پھیلاؤ سے بچاؤ جیسے اقدامات کو یقینی بنایا۔۔
تائیوان نے سارس کی وبا کا سامنا کرنے کے بعد نیشنل ہیلتھ کمانڈ سینٹر 'این ایچ سی سی' قائم کیا تھا،، اس ادارے کو صحت کے عالمی بحران میں حکومت کے ردعمل میں تعاون کا ٹاسک دیا گیا تھا۔۔
واضح منصوبہ۔!۔
سائی اِنگ وین نے واضح منصوبہ بندی کے ذریعے کورونا وائرس کو پھیلنے سے روکا، اور اس کے خلاف ردعمل میں شفافیت اور مضبوط ہم آہنگی پر زور دیا۔۔
جرنل آف امریکن میڈیکل ایسوسی ایشن کیرپورٹ کے مطابق تائیوان کی صدر نے این ایچ سی سی کے دفتر میں سینٹرل ایپیمڈیمک کمانڈ سینٹر 'سی ای سی سی' قائم کیا تاکہ وائرس اور اس کے اثرات سے متعلق معلومات جمع کی جائیں اور عوام کو باخبر رکھنے کے لیے اسے باقاعدہ طور پر پھیلایا جائے۔۔
اس کے ساتھ ہی تائیوان کی صدر نے معاشرتی سطح پر وائرس کے خلاف ردعمل کی حوصلہ افزائی کی جس کے تحت نجی اور سرکاری شعبوں نے صحت کے بحران کے لیے ایک دوسرے کے ساتھ مل کر کام کیا۔۔
۔اقدامات۔
سائی اِنگ وین نے تیزی سے اور مؤثر طریقے سے وبا سے نمٹنے کے لیے اقدامات کیے،، ویکسین یا مؤثر علاج نہ ہونے کی صورت میں کورونا وائرس کے مریضوں کو آئسولیٹ کیا گیا اور ٹیسٹ کٹس کی دستیابی کے بعد ہی بڑے پیمانے پر آبادی کی ٹیسٹنگ کے ساتھ ساتھ کانٹیکٹ ٹریسنگ 'متاثرہ افراد سے رابطے میں آنے والوں کی شناخت' کی گئی۔
اس حوالے سے تائیوان کے ڈاکٹر اور اسٹین فورڈ میڈیسن کے ایسوسی ایٹ پروفیسر آف پیڈیاٹرکس جیسن وانگ نےبتایا کہ ' تائیوان نے عوام کی صحت کے تحفظ کے لیے کم از کم(124) ایکشن آئٹمز کی فہرست کو تیار کیا اور اس پر عملدرآمد کیا'۔
انہوں نے کہا کہ تائیوان کی پالیسیز اور اقدامات صرف سرحدی کنٹرول سے زیادہ تھے کیونکہ انہوں نے یہ جان لیا تھا کہ اتنا کافی نہیں ہے۔۔
جرنل آف امریکن میڈیکل ایسوسی ایشن کی رپورٹ کے مطابق کورونا وائرس کے خلاف تائیوان کی صدر کی کامیابی کی وجہ (124) اقدامات ہیں،، جن میں سے کچھ مندرجہ ذیل ہیں-:
بارڈر کنٹرول سفری پابندیاں اور کیسز کی تشخیص۔
31 دسمبر 2019 کو تائیوان کی صدر کے حکم پر انتظامیہ نے ووہان سے براہ راست پروازوں سے آنے والے مسافروں میں بخار اور نمونیا کی علامات کی جانچ کا آغاز کیا گیا تھا جس کے بعد سی ڈی سی نے ووہان سے آنے والے مسافروں میں بخار یا اپر رسپائریٹری ٹریکٹ انفکیشن 'سی ڈی سی' ہونے کی صورت سے متعلق آگاہ کرنے کی ہدایت جاری کی تھی۔۔
(20) جنوری (2020) کو ووہان کے لیے لیول (2) ٹریول الرٹ جاری ہوا اس کے ساتھ ہی سینٹرل ایپیمڈیمک کمانڈ سینٹر کو فعال کیا گیا۔ بعدازاں اگلے روز ووہان کے لیے لیول (3) ٹریول الرٹ جاری کیا گیا تھا۔ جس کے بعد جنوری کے اواخر میں ووہان سے آنے والے (459)سیاحوں کے داخلی اجازت نامے منسوخ کردیے گئے تھے۔۔۔
جنوری کے اواخر میں تائیوان کی صدر نے ووہان کے شہریوں پر پابندی عائد کی۔ چین سے آنے والے مسافروں کے لیے ملک میں داخلے سے قبل خود کو صحت مند ڈیکلیئر کرنا لازمی قرار دیا۔ چین جانے والے ٹورز کو (31) جنوری تک معطل کیا گیا، ہوبے کے لیے لیول (3) جبکہ چین کے دیگر علاقوں کے لیے لیول (2) الرٹ بھی جاری کیا گیا تھا۔۔
بعدازاں سائی اِنگ وین نے ووہان اور پھر چین کے صوبہ ہوبے سے آئے سیاحتی گروپس کو تائیوان سے واپس بھیجنے کا فیصلہ کیا۔ علاوہ ازیں 'این ایچ آئی اے' اور 'این آئی اے' نے مریضوں کی پچھلے (14) روز کی سفری تاریخ کو این ایچ آئی ڈیٹا بیس میں ضم کرنا شروع کیا۔۔
اس کے علاوہ سائی اِنگ وین کی حکومت کے جاری کردہ موبائل فونز کے ذریعے قرنطینہ کیے گئے افراد کی الیکٹرانک نگرانی کا آغاز کیا گیا۔ اور (30) جنوری کو چین سے آنے اور جانے والے ٹورز (29) فروری تک معطل کیا گیا تھا۔۔
فروری کے اوائل میں صوبہ ژیجانگ کے لیے لیول (2) ٹریول الرٹ جاری کیا گیا ۔اور پچھلے (28) روز میں مشتبہ کیسز والی کروز شپس سمیت چین،، ہانگ اور مکاؤ میں گزشتہ (14) روز میں لنگر انداز ہونے والی کروز شپس پر پابندی عائد کی گئی تھی۔۔۔
بعدازاں (29) فروری تک ہانگ کانگ اور مکاؤ کے سفر،، چینی شہریوں کے داخلے،،، تمام بین الاقوامی کروز شپس پر پابندی لگائی گئی،،، ڈائمنڈ پرنسس کروز شپ کے مسافروں کی کانٹیکٹ ٹریسنگ کا آغاز کیا گیا، جو (31) جنوری کو تائیوان آئے تھے-۔
7 فروری کو سائی اِنگ وین نے پچھلے 14 روز میں چین ہانگ کانگ یا مکاؤ کا سفر کرنے والے غیر ملکی شہریوں اور دیگر غیر ملکیوں کے لیے، ای گیٹ کے استعمال پر پابندی کردی، علاوہ ازیں گھر میں 14 روزہ قرنطینہ کا قانون توڑنے پر جوڑے پر 3 لاکھ نیو تائیوان ڈالر '10 ہزار امریکی ڈالر' کا جرمانہ کرنے کا اعلان کیا گیا تھا۔۔
جس کے اگلے ہی روز ایک ہی دن میں سپر اسٹار ایکیوئیریس کروز شپ پر سوار 128 مسافروں کا ٹیسٹ کیا گیا ۔تاہم سب کے نتائج منفی آئے۔ بعدازاں تائیوان کی صدر نے 30 اپریل تک چین سے آنے اور جانے والے ٹورز 31 مارچ تک مکاؤ یا ہانگ کانگ سے آنے اور جانے والے ٹورز پر، تائیوان سے چین جانے والی اکثر مسافر پروازوں پر 10 فروری سے 29 اپریل تک پابندیلگائی تھی 'جس میں بیجنگ، شنگھائی پوڈونگ، شنگھائی ہونگ کیو، ژیامین اور چینگ ڈو ایئرپورٹس شامل نہیں تھے'
اسی ماہ دیگر ممالک کے لیے سفری انتباہ جاری کیے گئے اور تائیوان میں داخل ہونے والے شہریوں کے لیے درست ہیلتھ ڈیکلیئریشن لازمی قرار دینے کے ساتھ ساتھ خلاف ورزی کی صورت میں ڈیڑھ لاکھ نیو تائیوان ڈالر '5 ہزار امریکی ڈالر' جرمانے کا فیصلہ کیا گیا۔ علاوہ ازیں تائیوان کی صدر نے ہوم آئسولیشن کی خلاف ورزی پر 3 لاکھ نیو تائیوان ڈالر '10 ہزار امریکی ڈالر' جرمانے اور گھر میں قرنطینہ کی خلاف ورزی پر ڈیڑھ لاکھ نیو تائیوان ڈالر '5 ہزار امریکی ڈالر' جرمانہ عائد کرنے کا اعلان کیا تھا۔
بحری جہاز ایم ایس ویسٹر ڈیم سے تائیوان کے باشندوں کی واپسی اور فوری قرنطینہ کرنے کا فیصلہ ہوا۔ لیکن اس میں موجود غیر ملکی شہریوں کو تائیوان میں داخلے کی اجازت نہیں دی گئی تھی۔ سائی اِنگ وین نے ہانگ کانگ سے آنے والے 3 افراد سے جو ایک ہفتے تک قرنطینہ میں رہے۔ بغیر غائب ہوئے تھے پر 70 ہزار نیو تائیوان ڈالر '2 ہزار 350 امریکی ڈالر' فی کس جرمانہ عائد کیا اور انہیں خصوصی آئسولیشن کوارٹرز منتقل کیا تھا۔۔
فروری کے وسط میں تائیوان نے 2 تائیوانی خواتین اور غیر واضح شہریت کے ایک مرد کے نام شائع کیے تھے جنہیں گھر میں قرنطینہ کی ہدایت کے بعد، ڈھونڈا نہیں جا سکا تھا بعدازاں 14 روز کی غیر ملکی سفری تاریخ کے افراد اور کووڈ-19 کی مشتبہ کیسز سمیت مرض کی علامات ظاہر کرنے والے مسافروں سے رابطے میں رہنے والے افراد کا پتا لگایا گیا۔ 3 روز کیاینٹی بائیوٹک تھراپی کے بعد بہتری نہ آنے والے نمونیا کے کیسز، نمونیا کے کلسٹر کیسز یا نمونیا والے ہیلتھ کیئر ورکرز تک اقدامات میں توسیع کی گئی تھی۔ اور بخار یا سانس کی بیماری کی علامات کے مسافروں کے نمونے لینے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔۔
18 فروری کو ڈائمنڈ پرنسس کروز شپ سے تائیوان آنے والے تائیوانی مسافروں کے لیے سی ای سی سی کی چارٹر پرواز کے استعمال اور قرنطینہ کا فیصلہ کیا، تمام ہسپتالوں، کلینکس، اور فارمیسز کو مریضوں کی سفری تاریخ تک رسائی فراہم کی گئی۔ جس کے اگلے ہی روز مکاؤ یا ہانگ کانگ سے جانے یا آنے والے سفر پر 30 اپریل تک پابندی عائد کی گئی۔۔
علاوہ ازین چین، ہانگ کانگ اور مکاؤ کی سفری تاریخ والے مسافروں کے لیے آمد کے دن سے گھر میں 14 روزہ قرنطینہ ،لیول ون اور ٹو ممالک سے آنے والے، مسافروں کے لیے 14 روز سیلف ہیلتھ منیجمنٹ، جنوبی کوریا سے آنے والے، غیر ملکی افراد کے لیے 25 فروری سے 14 روزہ قرنطینہ اور جنوبی کوریا سے آنے والے تائیوانی شہریوں کے لیے 26 فروری سے 14 روزہ سیلف ہیلتھ منیجمنٹ کا فیصلہ بھی کیا گیا تھا۔۔
وسائل مختص کرنے سے متعلق اقدامات۔
تائیوان کی صدر نے ماسک کی فراہمی سے متعلق اہم اقدامات کیے اور اس کی پیداوار میں بھی اضافہ کیا۔ 22 جنوری کو تائیوان کی صدر نے ریٹیلیرز کے لیے ماسک مختص کیے اور 50 ماسک کی قیمت 300 نیو تائیوان ڈالر (10 امریکی ڈالر) طے کی تھی۔ وزارت اقتصادی امور نے ماسک کی تیاری کی یومیہ پیداواری صلاحیت 13 لاکھ ماسک کی مقامی طلب سے بڑھا کر 24 لاکھ 40 ہزار ماسک کردی تھی۔
بعدازاں تائیوان کی صدر نے سی ڈی سی اور 8 مختص کردہ ہسپتالوں میں کووڈ-19 ٹیسٹنگ کا فیصلہ کیا تھا۔ جبکہ 23 فروری تک ڈسپوزیبل ماسک کی برآمد پر پابندی عائد کردی تھی۔ باہر جانے والے مسافروں کے لیے صرف 250 ماسک کی اجازت دینے کی پابندی کی خلاف ورزی کی صورت میں ماسک قبضے میں لینے اور ماسک کی رقم سے 3 گنا زیادہ جرمانے عائد کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔۔
30 جنوری تک مقامی مینوفیکچررز نے یومیہ 40 لاکھ ماسک تیار کیے تھے۔،اسٹورز، مقامی فارمیسیز اور میڈیکل سپلائی اسٹورز پر ایک سے 3 ماسک کی خریداری کی اجازت دی گئی۔ ایک ماسک کی قیمت 8 نیو تائیوان ڈالر '0.27 امریکی ڈالر' مقرر کردی گئی اس کے ساتھ ہی تائیوان کے ہائی پراسیکیوٹرز آفس نے بیماری سے بچاؤ کی مصنوعات پر قیمتوں میں اضافے سے منافع روکنے کی مہم کا آغاز کیا تھا جس کے لیے ایک سے 7 سال قید اور 50 لاکھ نیو تائیوان ڈالر'ایک لاکھ 67 ہزار امریکی ڈالر' جرمانے کا اعلان کیا۔۔
سائی انگ وین نے 31 جنوری سے 15 فروری تک سرجیکل ماسک کی تیاری کو لازمی قرار دیا۔ اور یومیہ تیار ہونے والے 40 لاکھ ماسک میں سے، ہسپتالوں اور میڈیکل ورکرز کو 14 لاکھ ماسک الاٹ کیے گئے اور دیگر 26 لاکھ صارفین کے لیے مختص کردیے گئے تھے۔۔
تائیوان کی صدر نے گوداموں یا خالی فوجی کیمپوں کو قرنطینہ میں تبدیل کردیا تھا۔ سپاہیوں کو مقامی ماسک فیکٹریز کی پروڈکشن لائنز پر متحرک کیا گیا۔ جبکہ چونگہوا پوسٹ کے 3 ہزار ورکرز کو 6 ہزار 515 فارمیسیز اور 52 طبی مراکز کو یومیہ ماسک کی تقسیم کی ہدایت کی گئی تھی۔۔
علاوہ ازیں تائیوان کی ڈیجیٹل منسٹری کے انجینئرز نے فارمیسیز میں عوام کو ماسک کے اسٹاک کی آگاہی کے لیے ایپلی کیشن تیار کی تھی۔ کنڈرگارٹنز کو بچوں میں 5 لاکھ ماسک تقسیم کرنے لیے مفت ماسک فراہم کیے گئے تھے۔ ماسک اور ڈس انفیکٹنٹس فروخت کرنے والے مشین آپریٹرز کو سزا دینے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔۔
بعدازاں تائیوان کی صدر نے کووڈ-19 کی یومیہ ٹیسٹنگ صلاحیت کو 1300 نمونوں تک بڑھادیا تھا۔ ماسک کی پیداوار 50 لاکھ یومیہ کردی گئی تھی۔ اور دکانداروں کو فروخت کے لیے یومیہ 400 ماسکس الاٹ کیے گئے۔ جبکہ کے-12 اسکولز کو 64 لاکھ 50 ہزار ماسکس اور اسکولز کھلنے سے قبل انہیں 25 ہزار فورہیڈ تھرمامیٹرز اور 84 ہزار لیٹرز الکحل بیسڈ سینیٹائزر فراہم کیے تھے۔۔
مواصلات اور سیاحت سے متعلق اقدامات۔۔
سائی اِنگ وین نے وبا سے متعلق جعلی خبریں پھیلانے پر 30 لاکھ نیو تائیوان ڈالر 'ایک لاکھ امریکی ڈالر' جرمانے کا اعلان کیا تھا۔۔
جنوری میں کرمنل انویسٹی گیشن بیورو نے 6 مشتبہ افراد کی جانب سے ہسپتالوں، یا محلوں میں مریضوں، یا سرجیکل ماسک کی قیمتوں میں اضافے سے متعلق جھوٹی افواہوں کی تحقیقات کی تھیں جبکہ اگلے ماہ کرمنل انویسٹی گیشن بیورو نے مشتبہ افراد سے پوچھ گچھ کی تھی۔ جنہوں نے فیس ماسک کی پیدوار کی وجہ سے ٹوائلٹ پیپر کی قلت کی افواہ پھیلائی تھی۔ اس کے نتیجے میں ٹوائلٹ پیپر سے متعلق افراتفری پھیل گئی تھی۔۔
تائیوان کی صدر نے وبا سے متاثرہ کاروبار کے لیے 60 ارب نیو تائیوان ڈالر اور '2 ارب امریکی ڈالر مختص کیے۔ اسکولز کی یومِ سرما کی تعطیلات میں 15 سے 25 فروری تک توسیع کی گئی۔ اور سرکاری ملازمین کو 11 فروری سے 24 فروری کے درمیان کورونا وائرس کی وجہ سے 12 سال سے کم عمر بچوں کی دیکھ بھال کے لیے 14 روز کی بلا معاوضہ چھٹی دینے کا اعلان کیا تھا۔۔
علاوہ ازیں وزارت تعلیم نے جامعات اور کالجز کو جراثیم سے پاک کرنے کے لیے لائسنس یافتہ کمپنیوں کی کمیشن کے ذریعے نگرانی کی تھی۔ اور بخار یا سانس کی بیماری کی علامات والے طلبہ کی غیر حاضری کو ('حاضری') کے ریکارڈ میں شامل نہ کرنے کا اعلان کیا تھا۔۔
بعدازاں وزارت تعلیم نے کورونا وائرس کے تصدیق شدہ کیسز پر کلاسز کی معطلی سے متعلق ہدایات جاری کیں۔ وزارت محنت نے کورونا وائرس سے متاثر ورکرز کو مالی معاونت فراہم کرنے اور 18 ہزار 960 نیوتائیوان ڈالر (630 امریکی ڈالر) تک کی سبسڈیز کا فیصلہ کیا تھا-
دوسری جانب وزارت ٹرانسپورٹیشن اینڈ کمیونیکیشن نے اسکول بسز تائیوان ہائی اسپیڈ ریل تائیوان ریلویز، ٹور بسز اور ٹیکسیز کے لیے صفائی کے ضوابط جاری کیے تھے۔۔
ان اقدامات کے علاوہ 21 مارچ کو تائیوان نے دنیا کے تمام ممالک کے لیے لیول 3 ٹریول الرٹ جاری کیے تھے۔ اور تمام ممالک کے لیے غیر ضروری سفر سے گریز کی ہدایت کی تھی۔۔
دوسرے ممالک کی مدد۔
وبا کو روکنے کے علاوہ تائیوان نے دیگر ممالک کی مدد بھی کی یکم اپریل کو ملک کی صدر نے امریکا اٹلی اسپین اور دیگر یورپی ممالک کو ایک کروڑ ماسک عطیہ کرنے کی یونین کی پیداوار بڑھانے اور وبا کے پھیلاؤ کا پتا لگانے کے لیے اپنی ٹیکنالوجی شیئر کرنے کا اعلان کیا تھا۔۔
اس مقصد کے لیے -تائیوان مدد کرسکتا ہے- کے عنوان کی مہم کے تحت مختلف ممالک کی مدد کی گئی۔۔
موازنہ اور تعارف۔
تائیوان اور آسٹریلیا دونوں جزائر ہیں۔ اور وبا کے ابتدائی مرکز چین کے ساتھ ان ممالک کے تجارتی اور ٹرانسپورٹ کے تعلقات ہیں۔ وبا کی تصدیق کے 10 ہفتے بعد 5 اپریل کو آسٹریلیا میں مصدقہ کیسز کی تعداد 5 ہزار جبکہ تائیوان میں 400 تھی۔۔
جونز ہاپکنز یونیورسٹی کے اعداد و شمار کے مطابق 16 مئی کو تائیوان میں کورونا وائرس کے کیسز کی تعداد 440 اور اموات 7 تھیں۔ دوسری جانب آسٹریلیا جس کے آبادی تائیوان سے تھوڑی زیادہ یعنی تقریباً ڈھائی کروڑ ہے وہاں کیسز کی تعداد 7 ہزار تھی۔ اور 98 افراد ہلاک ہوچکے تھے۔۔
27 جون کو تائیوان میں کیسز کی تعداد 455 اور ہلاکتوں کی تعداد 7 تھی۔ جبکہ آسٹریلیا میں کیسز کی تعداد 14 ہزار 935 اور ہلاکتوں کی تعداد 161 تھی۔۔
تائیوان مشرقی ایشیا میں واقع ہے۔ چین تائیوان کو اپنے ملک کا حصہ سمجھتا ہے۔ کیونکہ دونوں ممالک نے 1949 کی خانہ جنگی کے بعد علیحدگی اختیار کرلی۔ تھی تاہم تائیوان اپنے آپ کو ایک علیحدہ ملک تصور کرتا ہے۔ جس کی اپنی کرنسی، سیاسی اور عدالتی نظام ہیں۔تاہم اس نے باقاعدہ طور پر اپنی آزادی کا اعلان نہیں کیا۔۔
چین کی جانب سے تائیوان کو اکائی ماننے کے باعث عالمی سطح پر زیادہ تر ممالک جو کسی نہ کسی طریقے سے چین پر زیادہ انحصار کرتے ہیں۔ تائیوان کو بطور ملک تسلیم نہیں کرتے۔ اس ہی وجہ سے تائیوان اقوام متحدہ اور اس کے کسی ذیلی ادارے کا رکن بھی نہیں ہے۔۔
تائیوان کی آبادی 2 کروڑ 38 لاکھ 18 ہزار 722 ہے۔ اس کی آبادی دنیا کی مجموعی آبادی کا 0.31 فیصد ہے۔ اور یہاں کی اوسط عمر ساڑھے 42 سال ہے۔۔
معاشی لحاظ سے تائیوان ایک مستحکم ملک ہے اور یہ 2017 میں، دنیا کے امیر ترین ممالک میں 22ویں نمبر پر تھا، اس کی پر کیپٹا جی ڈی پی کا تخمینہ 25 ہزار 526 امریکی ڈالرز ہے تاہم بین الاقوامی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) کے 14 اپریل 2020 کے آؤٹ لک کے مطابق کورونا وائرس کی عالمی وبا کے باعث 2020 میں تائیوان کی (جی ڈی پی)منفی 4 تک کم ہونے کا امکان ہے جو وبا کے عالمی معیشت کی ریکوری کے بعد 2021 میں ساڑھے 3 فیصد تک جاسکتی ہے۔۔
کامن ویلتھ فنڈ کے مطابق 2017 میں تائیوان کے صحت کے اخراجات جی ڈی پی کا 6.4 فیصد تھے۔ جن میں سے نیشنل ہیلتھ انشورنس کا حصہ 53.7 فیصد تھا جو جی ڈی پی کا 3.4 فیصد تھا۔۔
ملک کی خاتون صدر سائی اِنگ وین-
(سائی اِنگ وین) 2016 میں تائیوان کی تاریخ میں صدر منتخب ہونے والے پہلی خاتون تھیں جو رواں برس جنوری میں دوسری مدت کے لیے ریاست کی صدر منتخب ہوئیں۔
وہ 1956 میں تائیوان کی پنگ ٹونگ کاؤئنٹی کے فانگ شان ٹاؤن شپ میں پیدا ہوئیں۔ وہ تدریس کے شعبے کت ساتھ سیاست سے بھی وابستہ رہیں۔ وہ پیشے کے اعتبار سے وکیل ہیں۔۔ انہوں نے نیشنل تائیوان یونیورسٹی سے وکالت کی ڈگری حاصل کی تھی۔ بعدازاں کارنل یونیورسٹی ۔اتھاکا۔ نیویارک سے ماسٹرز اور لندن اسکول آف اکنامک سے قانون میں ڈاکٹریٹ کیا تھا،۔ انہوں نے تاپئی کی مختلف جامعات میں بطور استاد خدمات سرانجام دیں۔۔
1990 میں بطور ٹریڈ ایڈوائزر سیاست میں قدم رکھا۔ 2004 میں تائیوان اسمبلی کی رکن منتخب ہوئیں۔ 2006 میں نائب وزیراعظم بنیں اور 2008 میں ڈیموکریٹک پروگریسو پارٹی 'ڈی پی پی' کی پہلی خاتون سربراہ بنیں اور 2010 میں اسی عہدے پر دوبارہ منتخب ہوئیں۔۔
سائی انگ وین نے 2012 میں صدارتی امیدوار کے طور پر حصہ لیا تھا تاہم انہیں ناکامی ہوئی۔ اور 2016 میں تائیوان کی پہلی خاتون صدر بننے کا اعزاز حاصل کیا۔ اس کے ساتھ وہ اس عہدے پر منتخب ہونے والی دوسری شخصیت تھیں۔ جن کا تعلق 'کومِنٹانگ' جماعت سے نہیں تھا اور وہ تائیوان کی نسلی اقلیت ۔ہاکا۔ میں سے اس عہدے تک پہنچنے والی پہلی شخصیت بھی ہیں۔
20 جون کو کوپن ہیگن ڈیموکریسی سمٹ سےخطاب کرتے ہوئے سائی انگ وین نے کہا تھا۔ کہ تائیوان نے جمہوریت کی قربانی دیے بغیر کورونا وائرس کا مقابلہ کیا۔ اور تمام جمہوری ممالک کو اسی طرح کے نظریات پر ملک کر کام کرنا چاہیے۔۔
انہوں نے زور دیا تھا کہ کورونا وائرس کے خلاف جنگ میں تائیوان کی جمہوریت ایک قیمتی اثاثہ ہے۔ کیونکہ اس نے عالمی وبا کو روکنے میں ہر ایک کو حق دیا۔۔
No comments:
Post a Comment